فضائل رمضان المبارک
رمضان المبارک کی آمدمسلمانوں کیلئے نویدجانفزااور برکتوں اوررحمتوں کاایک خزانہ ہے ۔ حضورا فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کی پہلی رات کو شیاطین مقیداورجہنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیںاور جنت اوررحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔
اس مبارک مہینہ کی اہم ترین عبادت روزہ ہے ،روزہ کی حقیقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ کھانا پینااور صحبت چھوڑدیناہے ۔
جو شخص محض اللہ کے واسطے روزہ رکھتاہے گذشتہ گناہ اس کے معاف کردئے جاتے ہیں ، اور روزہ دار کے منھ کی بو کی (قدروقیمت ) خداوندتعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ محبوب ہے ، اور روزہ دارکواللہ تعالیٰ اپنے دست ِ قدرت سے ثواب عطافرمائیں گے ، اور جنت میں روزہ رکھنے والے کے داخل ہونے کیلئے ایک خاص دروازہ ہے جسکانام ریّان ہے اورروزہ نہ رکھنے والے کیلئے یہ عذاب کیاکم ہے کہ اس کے مالک وخالق اللہ تعالیٰ اس کے اس فعل بدسے سخت ناراض وناخوش ہوتے ہیں اورفرشتوں اورنیک بندوںکی محفلوں میں مذمت اوربرائی سے اس کو یاد کیاجاتا ہے ، اورجس جگہ رمضان کے دن میںروزہ نہ رکھنے والاکچھ کھاتاپیتاہے ، قیامت کے دن وہ جگہ گواہی دے گی کہ اس نے میری پیٹھ پر گناہ کیاتھا،اسلئے مسلمانوںکو لازم ہے کہ روزہ ٔرمضان کی قدرکریںاور اس سے غفلت کرکے اپنے لئے نقصان دنیوی اورخسرانِ اخروی
کاسامان مہیانہ کریں۔
روزہ کی فرضیت
ر وزہ کی فرضیت قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے ثابت ہے اس کی فرضیت کا منکر کافرہے ، اور اس کوبلاعذر ترک کرنے والاسخت گنہگار اور فاسق ہے ۔
روزہ کی نیت
روزہ کیلئے زبان سے نیت کرناضروری نہیں ہے ،صرف دل سے یہ ارادہ کرلینا کہ آج میراروزہ ہے کافی ہے ،اگر زبان سے بھی اردومیں یہ کہہ دے کہ کل روزہ رکھوںگا یاعربی میں بِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ کہہ لے تو بہترہے ، اگر بلانیت کے کوئی شخص بھوکاپیاسا رہے اور صحبت بھی نہ کرے توروزہ نہ ہوگا، روزہ کا وقت صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے ، رمضان کے روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے بہتر ہے اوراس کے بعد بھی دوپہرسے احتیاطاً ایک گھنٹہ پہلے تک کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ کچھ کھایاپیانہ ہواورہم بستری بھی نہ کی ہو ۔
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(۱) بھول کر کھاناپینا اورصحبت کرنا۔
(۲) مسواک کرنا۔
(۳) خو د بخود قے آنا۔
(۴) خوشبوسونگھنا۔
(۵) بلاقصد حلق میں گردغبار، مکھی،مچھرچلاجانا۔
(۶) سر یامونچھوں پر تیل لگانا۔
(۷) احتلا م ہونا۔
(۸) آنکھ میں سرمہ یا دوایا پانی ڈالنا۔
(۹) تھوک اوربلغم نگلنا۔
(۱۰) منھ بھرسے کم قصداً قے کرنا۔
(۱۱) پان کی سرخی غرغرہ کے بعدرہنا۔
(۱۲) رات کے وقت صحبت کرکے صبح صادق سے قبل نہ نہانا۔
(۱۳) انجکشن لگوانا۔
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتاہے
(۱) ناک یا کان میںدواڈالنا۔
(۲) قصداًمنھ بھرکے قے کرنا۔
(۳) کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلاجانا۔
(۴) ناس لینا۔
(۵) حقنہ کرانا، کنکر، پتھر، لوہا وغیرہ کھانا۔
(۶) غلطی سے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا روزہ کھولنا۔
(۷) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد کھانا۔
(۸) لوبان وغیرہ کی دھونی سونگھنا۔
(۹) سگریٹ اور حقہ پینا،پان تمباکو کھانا۔
(۱۰) جس تھوک میں غالب خون کی آمیزش ہو اس کونگل جانا۔
(۱۱) پا خانہ کی جگہ میں دوا استعمال کرنا، پیشاب کی جگہ میں دوا استعمال کرنے سے عورت کاروزہ ٹوٹ جاتاہے مردکانہیںٹوٹتا، دانتوںمیںجو گوشت کاریشہ پاچھالی وغیرہ کا ٹکڑا رہ گیاہے اس کو منھ سے باہرنکال کر کھالیاتو روزہ ٹوٹ گیا، اور اگراندرہی اندرزبان سے نکال کر نگل گیاتو اگر چنے کے برابریااس سے زائدہوتوروزہ فاسد ہوجائے گا،ورنہ نہیں،اگرقصداً روزہ توڑدیا تو اس پرقضا اور کفارہ دونوں واجب ہوںگے اور اس کاکفارہ یہ ہے کہ دومہینے کے متواتر روزے رکھے ، بیچ میں ناغہ نہ ہو، ورنہ پھرشروع سے ساٹھ روزے پورے کرنے پڑیں گے ، اوراگر روز ے رکھنے کی طاقت نہ ہو توسا ٹھ مسکینوںکو صبح وشام پیٹ بھرکرکھانا کھلائے یاساٹھ مسکینوںمیں سے ہرایک کو صدقۂ فطرکے برابر اناج یااس کی قیمت دیدے ۔
روزہ کے مکروہات
(۱) بلاضرورت کسی چیزکو چبانایا نمک وغیرہ کو چکھ کر تھوک دینا۔
(۲) منجن یا کوئلے سے دانت صاف کرنا ۔
(۳) تمام دن حالت جنابت میں بغیرغسل کے ر ہنا ۔
(۴) فصدکرانا۔
(۵) غیبت کرنا،یہ ہر حال میں حرام ہے ،روزہ میں اسکاگناہ اوربڑ ھ جاتا ہے ۔
(۶) روزہ میں لڑناجھگڑنا،گالی دینایہ سب روزہ میںمکروہ ہیں ،البتہ ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
و ہ عذر جن کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہ رکھناجائزہے
(۱) بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہویامرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھناجائزہے بعد رمضان اس کی قضا لازم وضروری ہے ، اگر بیماری وغیرہ کی وجہ سے کسی بھی موسم میں موت تک اس کی ادائیگی پرقدرت نہ ہو تو فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس کے ذمہ واجب ہے ۔
(۲) جو عورت حمل سے ہواور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہونچنے کا قوی اندیشہ ہوتوروزہ نہ رکھے بعد میں قضاکرے ۔
(۳) جو عورت اپنے یا کسی کے بچے کو دودھ پلاتی ہے اگر روزہ سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا،تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھرقضاکرے ۔
(۴) مسافرشرعی (جو کم از کم اڑتالیس میل کے سفرکی نیت پر گھرسے نکلاہو) کیلئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن اگر تکلیف ودقت نہ ہو توافضل یہی ہے کہ سفرہی میں روزہ رکھ لے ، اگر خوداپنے آپ کو یااپنے ساتھیوںکو اس سے تکلیف ہوتوروزہ نہ رکھناہی افضل ہے۔
(۵) بحالت روزہ سفرشروع کیاتو اس روزہ کاپورا کرنا ضروری ہے ، اگرکچھ کھانے پینے کے بعدسفر سے وطن واپس آگیا تو باقی دن کھانے پینے سے احتراز کرے۔
(۶) کسی کو قتل کی دھمکی دے کرروزہ توڑنے پرمجبور کیا جائے تو اس کیلئے توڑ دینا جائزہے پھرقضاکرلے ۔
(۷) کسی بیماری یا بھوک پیاس کا اتناغلبہ ہوجائے کہ کسی مسلمان دیندار ماہر طبیب یاڈاکٹرکے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہوتوروزہ توڑدینا جائز بلکہ واجب ہے اورپھر اس کی قضالازم ہوگی۔
(۸) عورت کیلئے ایام حیض میں اوربچہ کی پیدائش کے بعدجو خون آتاہے یعنی نفاس اس کے دوران میں روزہ رکھنا جائزنہیں ،ان ایام میں روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرے ۔
سحروافطار
سحری کھانا سنت ہے،اگر بھوک نہ ہوتب بھی دوایک چھوارے کھالے یاکم ازکم پانی ہی پی لے، سحری دیرکرکے کھاناسنت ہے مگراتنی دیرنہ کرے کہ وقت میں شک ہوجائے ۔
آفتاب کے غروب ہونے کایقین ہوجانے کے بعدفوراً روزہ کھولنامستحب ہے اور دیرکرنامکروہ ہے ، البتہ ابرکے دن افطارمیںدیراورسحری میں جلدی کرنی چاہئے ، اورافطارکے وقت اگرممکن ہوتو اس قدر کھاپی لے کہ شدت اشتہاء میںکمی ہوجائے اور نماز خشوع وخضوع سے پڑھی جائے ، امام کو چاہئے کہ مغرب کی نمازمیںبہت جلدی نہ کرے بلکہ مقتدیوںکی قدرے رعایت مناسب ہے تاکہ سب لوگ اطمینان سے کلی وغیرہ سے فارغ ہوکرشریک جماعت ہوسکیں، چھوارے یاکسی اور میٹھی چیزسے روزہ افطارکرنابہتر ہے، ورنہ پانی یاکسی اورچیزسے افطار کرے،بعض عورتیں اورمرد نمک سے افطارکرنے میںثواب سمجھتے ہیں یہ غلط ہے ۔
افطارکے وقت یہ دعاپڑھنامسنون ہے ۔اَللّٰھُمّ لَکَ صُمْتُ وَعَلیٰ رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔
مسائل تراویح
ر مضان شریف کی راتوںمیں عشاء کے فرض نمازکے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ، تراویح میںایک مرتبہ کلام اللہ پڑھنایاسننابھی سنت ہے ، اوریہ دونوںجداجدا سنتیں ہیں، اسلئے جولوگ چندراتوںمیںایک کلام پاک سن کر تراویح چھوڑدیتے ہیںان کی ایک سنت تو ادا ہوگئی دوسری ادا نہیں ہوئی ،کسی جگہ حافظ قرآن سنانے والانہ ملے یاملے مگر سنانے پر اجرت ومعاوضہ طلب کرے تو اَلَمْ تَرَ کَیْفَ سے تراویح اداکرلیں،اجرت دے کرقرآن نہ سنیں،کیونکہ قرآن سنانے پراجرت لینااور دیناحرام ہے ۔
تراویح میں قرآن شریف پڑھنے کے مسائل
قرأت میں کسی کلمہ کی زیادتی وکمی سے اگرمعنی ٰ بالکل بدل جائیں تو نمازفاسد ہو جاتی ہے ، جیسے فَمَالَھُمْ لاَیُومِنُون میں لَاکو چھوڑدیا،اگرمعنیٰ نہ بدلیںتونماز فاسد نہیں ہوتی ، جن حروف میں امتیازمشکل سے ہوتاہے وہ ایک دوسرے کے بجائے پڑھے جائیںتو فاسد نہیںہوتی جیسے سین ، صاد،ضاد، ظا،زال وغیرہ اور جن میںامتیاز سہل ہے وہ اگرایک دوسرے کی جگہ پڑھے جائیںاور معنیٰ بالکل بدل جائیںتونماز فاسد ہوجاتی ہے جیسے اگرصالحات کی جگہ طالحات پڑھا گیاتو نماز فاسد ہوجائے گی،اور تبدیل الفاظ میںاگرمعنیٰ بالکل بدل جائیںتو نمازمیںفسادیقینی ہے ۔ورنہ نہیں،جیسے علیم کی جگہ خبیروحفیظ وغیرہ پڑھاگیا تو نماز درست ہے اوروَعْداً عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنْ کی جگہ غَافِلِیْن پڑھنے سے نمازفاسدہوجاتی ہے اور دوجملوںکے تبدیل الفاظ میںاگر معنیٰ بھی بدل جائیںتو نمازفاسدہے ،اِنَّ الاَْبْرَارَ لَفِی نَعِیْم وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیْممیںجحیمکی جگہ نعیم اورنعیم کی جگہ جحیم پڑھنے سے نمازفاسدہوجاتی ہے ،اگر معنی ٰ نہ بدلیں جیسے لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْر وَشَھِیْق میں شھیق وزفیر پڑھا تو نمازدرست ہے ۔
اعتکاف
رمضان شریف کے آخردس دن کااعتکاف کرناسنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اگر محلہ میں سے ایک آدمی بھی معتکف ہوجائیگا توتمام لوگ بری الذمہ ہوجائیں گے ورنہ سب کے سب تارکِ سنت وگنہگار ہوںگے،مردکے (اعتکاف کیلئے) مسجدجماعت ہوناضروری ہے اورعورت اپنے گھرمیںایک خاص جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرے اور نیت کاہونااورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے اگردرمیان میں حیض آجائے یا بچہ پیداہوجائے تو اعتکاف چھوڑدے ،اعتکاف میں صحبت کرنا،بوسہ لینا،لپٹنا وغیرہ بھی درست نہیں ۔ مردکومسجدسے اورعورت کواعتکاف کی جگہ سے بلاضرورت نکلنادرست نہیں ، بلاضرورت اعتکاف کی جگہ سے نکلنامفسداعتکاف ہے ،یعنی جن دنوںمیں اعتکاف ہوچکاہے وہ درست رہا،باقی دنوںکا نہیں ، ہاں ضرورت طبعی وشرعی (جیسے پیشاب پاخانہ وغیرہ اور نماز) کی وجہ سے باہرنکلنا درست ہے ، جمعہ کی نمازکے لئے اتنا پہلے جائے کہ وہاں جاکرتحیۃ المسجداور جمعہ کی سنت پڑھ لے اور بعدکی سنتیں بھی وہاںٹھہرکر پڑھنا جائز ہے ، بھو لکر یاجان کر جماع وغیرہ کرنا مفسداعتکاف ہے اس میںنسیان معتبرنہیں ، حالت ِ اعتکاف میںبالکل چپ رہنامکروہ ہے البتہ فضول باتیں نہ کرے بلکہ تلاوت کلام اللہ یاکسی اورعبادت میں مشغول رہے۔
احکام عیدالفطر
(۱) عیدالفطرکے روزدورکعت نمازبطورشکریہ پڑھنا واجب ہے۔
(۲)عیدکا وقت سورج کے ایک نیزہ بلندہونے کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔
(۳) عیدالفطر کی نمازکایہ طریقہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ میں دو رکعت نمازواجب عید الفطر مع چھ تکبیروںکے پڑھتا ہوں،اس کے بعدتکبیرتحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللّٰھم پڑھ کرتین مرتبہ اللہ اکبر کہے اورہرمرتبہ مثل تکبیرتحریمہ کے دونوں ہاتھ کانوںتک اٹھائے اور بعد ہرتکبیر کے ہاتھ چھوڑدے اورہرتکبیرکے بعداتنی دیر توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ سکیں،اگر زیادہ مجمع کی وجہ سے اس سے کچھ زیادہ توقف ہوجائے تو کوئی حرج نہیں اور تیسری تکبیرکے بعدہاتھ نہ چھوڑے بلکہ ہاتھ باندھ لے ، اس کے بعد امام اعوذباللہ بسم اللہ پڑھ کر سورہ ٔفاتحہ اورکوئی دوسر ی سورت پڑھے اور مقتدی حسبِ دستور خاموش رہیں، سورت کے بعدرکوع وسجودکرکے امام کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ ٔفاتحہ اور سورۃ پڑھے اس کے بعد تین تکبیریںاسی طرح کہے ، لیکن یہاںتیسری تکبیر کے بعدہاتھ نہ باندھے بلکہ چھوڑے رکھے ،اورپھرچوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے ۔
(۴)عیدکا خطبہ سنناواجب ہے۔
(۵)اگرعید کی نمازسب پڑھ چکے ہوںتو تنہاایک آدمی نہیں پڑھ سکتا۔
(۶) اگرکسی کی ایک رکعت نما زچلی جائے تو وہ جب اس کو اداکرنے لگے تو پہلے قرأت پڑھے اوراس کے بعد تکبیریںکہے۔
(۷) اگرکوئی شخص نمازعیدمیںایسے وقت شریک ہوکہ امام حالت ِ قیام میں تھا اور تکبیروںسے فارغ ہوچکاتھاتو فوراً نیت باندھ کرتکبیریں کہہ لے۔ اگررکوع میں اس نے امام کو پایا تو اگر غالب گمان یہ ہوکہ تکبیروںکی ادائیگی کے بعد رکوع مل جائیگاتو نیت باندھ کرتکبیریں کہہ لے، ورنہ بحالت رکوع بجائے تسبیح کے تکبیریں ہاتھ اٹھائے بغیرکہے اور اگرابھی تکبیروںسے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ امام نے سراٹھالیا تو یہ بھی کھڑاہوجائے اور جوتکبیریں رہ گئیں وہ معاف ہیں۔
مسنونات عیدالفطر
(۱)شرع کے مطابق آرائش کرنا۔
(۲)مسواک کرنا ۔
(۳) غسل کرنا۔
(۴) حسبِ استطا عت عمدہ اورجائزکپڑے پہننا ۔
(۵)خوشبولگانا۔
(۶)صبح سویرے اٹھنا۔
(۷)عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیزمثل چھوارے وغیرہ کے کھانااگرکوئی عذر نہ ہوتوعیدگاہ میں نمازپڑھنا
(۹)ایک راستہ سے جانا دوسرے راستہ سے واپس آنا۔
(۱۰)پیادہ پاجانا
(۱۱) راستہ میں آہستہ آہستہ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبرلا الہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبراللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمدکہتے ہوئے جانا۔
صد قہ ٔ فطر
جس شخص کے پاس اتنامال ہوکہ ضروری سامان کے علاوہ اس مقدارکو پہونچ جائے جس پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس پر صدقۂ فطرواجب ہے اگرچہ سال پورانہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ،عیدالفطرکے دن صدقہ ٔفطر کے وجوب کیلئے مال مذکورکاہوناکافی ہے ، سال گذرناشرط نہیں، زکوٰۃ اورصدقہ ٔفطرمیں یہی فرق ہے ، صدقۂ فطر مرد پر اپنی اوراپنی نابالغ اولاد کی طرف سے اداکرنا واجب ہے اور اگر اولاد مالدارہوتواس کے مال سے اداکرے باپ کے مال میں واجب نہیں،صدقہ ٔفطرعید کی صبح صادق کے وقت واجب ہوتا ہے۔اس لئے جو بچہ اس کے بعد پیداہوا اور جو شخص اس کے قبل مرجائے ان دونوں پر صدقہ ٔفطر واجب نہیں ہے ۔
صد قہ ٔ فطرکی مقدار
صدقہ ٔفطرکی مقدارایک کلوچھ سواکسٹھ گرام (۶۶۱۔۱) گیہوںیااس کاآٹاہے ، مگر احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ کچھ زائد دیاجائے،اگرجویااس کاآٹادیوے تو اس سے دوچنددیوے، اوراگر گیہوں، جوکے علاوہ اورکوئی غلہ دے تو اس میں قیمت کا اعتبار ہے ، وہ غلہ اتناہوکہ قیمت کے لحاظ سے گیہوں اور جوکی مقدارواجب کے برابر ہوجائے اور اگرگیہوںجوکی قیمت لگاکردی جائے تواوربھی بہترہے ، صدقۂ فطر اگ
Tags